Pages

Monday, 24 June 2013

غارحرا میں واقعہ بعثت


شفقنا (بین الاقوامی شیعہ خبر رساں ادارہ) - تواریخ میں ہے کہ آپ نے ۳۸ سال کی عمرمیں” کوہ حرا“ جسے ""جبل نور"" بھی کہتے ہیں کواپنی عبادت گذاری کی منزل قراردیا اوراس کے ایک غارمیں بیٹھ کر جس کی لمبائی چارہاتھ اورچوڑائی ڈیڑھ ہاتھ تھی عبادت کرتے تھے اورخانہ کعبہ کو دیکھ کرلذت محسوس کرتے تھے یوں تو دو دو، چارچارشبانہ روز وہاں رہا کرتے تھے لیکن ماہ رمضان سارے کا سارا وہیں گزراتے تھے۔
مورخین کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی عالم تنہائی میں مشغول عبادت تھے کہ آپ کے کانوں میں آوازآئی ”یامحمد“ آپ نے ادھرادھر دیکھا کوئی دکھائی نہ دیا۔ پھرآوازآئی پھرآپ نے ادھرادھردیکھا، ناگاہ آپ کی نظرایک نورانی مخلوق پرپڑی وہ جناب جبرائیل تھے انہوں نے کہا کہ ”اقرا“ پڑھو، حضور نے ارشاد فرمایا”مااقراء-“ کیا پڑھوں؟ انہوں نے عرض کی کہ ” اقراء باسم ربک الذی خلق الخ“ پھرآپ نے سب کچھ پڑھ دیا۔
کیونکہ آپ کوعلم قرآن پہلے سے حاصل تھا جبرئیل کے اس تحریک اقراء کا مقصد یہ تھا کہ نزول قرآن کی ابتداء ہو جائے ۔ وہ پہلی آیت جو رسول پاک پر نازل ہوئی وہ یہ ہے ۔
اقراء باسم ربک الذی خلق ۔ خلق الانسان من علق ۔ اقراء و ربک الاکرم الذی علم بالقلم ۔ علم الانسان مالم یعلم ۔
ترجمہ:اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھوکہ جس نے انسان کو جمے ہوۓ خون سے پیدا کیا ہے پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے اور انسان کو وہ سب کچھ سکھا دیا ہے جو وہ نہیں جانتا تھا ۔
اس وقت آ پ کی عمرچالیس سال ایک یوم تھی اس کے بعد جبرئیل نے وضو اورنمازکی طرف اشارہ کیا اوراس کی

عفیفہ، قبول اسلام سے قبل ایک آزاد خیال ہندو لڑکی


شفقنا (بین الاقوامی شیعہ خبر رساں ادارہ) - قبولِ اسلام سے قبل عفیفہ ایک آزاد خیال ہندو لڑکی اور ہاکی کی کھلاڑی تھی۔ مگر جب اس نے اسلام کو فطرت کے قریب اور اپنے ضمیر کی آواز پایا تو اسے قبول کرلیا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہندوستان کی ایک ہاکی کھلاڑی آرہی ہیں تو ہم سوچ رہے تھے کہ آپ ہاکی کے ڈریس میں آئیں گی، مگر آپ ماشاءاللہ برقع میں ملبوس، اور دستانے پہن کر مکمل پردے میں ہیں۔ آپ اپنے گھر سے برقع اوڑھ کر کیسے آئی ہیں؟

عفیفہ: الحمدللہ میں پچھلے دو ماہ سے شرعی پردے میں رہتی ہوں۔

ابھی آپ کے گھر میں تو کوئی مسلمان نہیں ہوا؟

عفیفہ: جی، میرے گھر میں ابھی میرے علاوہ کوئی مسلمان نہیں ہے۔ اس کے باوجود میں الحمدللہ کوشش کرتی ہوں کہ میں اگرچہ گھر میں اکیلی مسلمان ہوں مگر میں آدھی مسلمان تو نہ بنوں، آدھی اِدھر، آدھی ادھر،

Thursday, 20 June 2013

Ehsas By Muhammad Abbas Naqvi

Ehsas
Author : Muhammad Abbas Naqvi
Translator : 
Language : Urdu
Category : General
Topic : 

72 Taray By Allama Najm-ul-Hasan Kararvi


72 Taray
Author : Allama Najm-ul-Hasan Kararvi
Translator : 
Language : Urdu
Category : Islamic History
Topic : Shohoda-e-Karbala

Wednesday, 19 June 2013

Ehsas By Muhammad Abbas Naqvi

Ehsas
Author : Muhammad Abbas Naqvi
Translator : 
Language : Urdu
Category : General
Topic : 
Download

Ibadaat o Namaz by Ustad Shaheed Mrutaza Muttahiri


Ibadaat o Namaz
Author : Ustad Shaheed Mrutaza Muttahiri
Translator : Syed Saeed Haider Zaidi
Language : Urdu
Category : Faroo-e-Deen
Topic : Namaz
Download

2 Muttazaad Tasveerayn By Shaykh Syed Abul Hasan Ali Nadvi (r.a)

Hidayat -ush- Shia By Shaykh Rasheed Ahmad Gangohi (r.a)

Booday Sawalon Kay Kamil Jawabaat By Shaykh Muhammad Qasim Nanotvi (r.a)

Islam Aut Shiat By Shaykh Hafiz Mehr Muhammad Mianwalvi

Huzoor [Sallallahu Alaihi Wasallam] Kay Baad Hukoomat Kaisay Qaaim Huee By Shaykh Dr Allamah Khalid Mehmood

Haqiqi Dastaweiz By Shaykh Abul Hasnain Hazarvi

سوره الاعراف sunyay

حديث''وسنتي'' کي دوسري سند


''و عترتي اہل بيتي '' صحيح ہے يا ''و سنتي''؟
حاکم نيشاپوري نے اس حديث کو ابو ہريرہ سے مرفوع طريقہ سے ايک ايسي سند کے ساتھ جسے ہم بعد ميں پيش کريں گے يوں نقل کيا ہے:
اِن قد ترکت فيکم شيئين لن تضلوا بعدھما : کتاب اللّہ و سنت و لن يفترقا حتي يردا علَّالحوض.
اس متن کوحاکم نيشاپوري نے درج ذيل سلسلہ سند کے ساتھ نقل کيا ہے:
''الضب'' عن ''صالح بن موسيٰ الطلح'' عن ''عبدالعزيز بن رفيع'' عن ''اءب صالح'' عن ''اءب ہريرہ''
يہ حديث بھي پہلي حديث کي طرح جعلي ہے . اس حديث کے سلسلہ سند ميں صالح بن موسي الطلحي نامي شخص ہے جس کے بارے ميں ہم علم رجال کے بزرگ علماء کے
نظريات کو يہاں بيان کرتے ہيں:

يحييٰ بن معين کہتے ہيں: کہ صالح بن موسيٰ قابل اعتماد نہيںہے . ابو حاتم رازي کہتے ہيں ، اس کي حديث ضعيف اور ناقابل قبول ہے اس نے بہت سے موثق و معتبر افراد کي طرف نسبت دے کر بہت سي ناقابل قبول احاديث کو نقل کيا ہے .
نسائي کہتے ہيں کہ صالح بن موسيٰ کي نقل کردہ احاديث لکھنے کے قابل نہيں ہيں، ايک اور مقام پر کہتے ہيں کہ اس کي نقل کردہ احاديث متروک ہيں .
ابن حجر اپني کتاب '' تھذيب التھذيب'' ميں لکھتے ہيں : ابن حِبانّ کہتے ہيں : کہ صالح بن موسيٰ موثق افراد کي طرف ايسي باتوں کي نسبت ديتا ہے جو ذرا بھي ان کي باتوں سے مشابہت نہيں رکھتيں سر انجام اس کے بارے ميں يوں کہتے ہيں: اس کي حديث نہ تو دليل بن سکتي ہے اور نہ ہي اس کي حديث حجت ہے ابونعيم اس کے بارے ميں يوں کہتے ہيں: اس کي حديث متروک ہے-وہ ہميشہ ناقابل قبول حديثيں نقل کرتا تھا
اسي طرح ابن حجر اپني کتاب تقريبميںکہتے ہيں کہ اس کي حديث متروک ہے اسي طرح ذہبي نے اپني کتاب کاشف  ميں اس کے بارے ميں لکھا ہے کہ صالح بن موسيٰ کي حديث ضعيف ہے.
يہاں تک کہ ذہبي نے صالح بن موسيٰ کي اسي حديث کو اپني کتاب ''ميزان الاعتدال''
ميں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ صالح بن موسيٰ کي نقل کردہ يہ حديث اس کي ناقابل قبول احاديث ميں سے ہے.
سيد رضا حسيني نسب
مترجم: عمران مہدي

مجمع جہاني اہل بيت (ع)

غير خدا كي قسم كھانا


 ابن تيميہ كا كہنا يہ ھے كہ اس بات پر علماء كا اتفاق ھے كہ باعظمت مخلوق جيسے عرش وكرسي، كعبہ يا ملائكہ كي قسم كھانا جائز نھيں ھے، تمام علماء مثلاً امام مالك، ابوحنيفہ اور احمد ابن حنبل (اپنے دوقولوں ميں سے ايك قول ميں) اس بات پر اعتقاد ركھتے ھيں كہ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم كي قسم كھانا بھي جائز نھيں ھے اور مخلوقات ميں سے كسي كي قسم كھانا چاھے وہ پيغمبر كي هو يا كسي دوسرے كي جائز نھيں ھے اور منعقد بھي نھيں هوگي، (يعني وہ قسم شرعي نھيں ھے اور اس كي مخالفت پر كفارہ بھي واجب نھيں ھے) كيونكہ صحيح روايات سے يہ بات ثابت هوتي ھے كہ پيغمبراكرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا:
خدا كے علاوہ كسي دوسرے كي قسم نہ كھاۆ، ايك دوسري روايت كے مطابق اگر كسي كو قسم كھانا ھے تو اس كو چاہئے كہ يا تو وہ خدا كي قسم كھائے يا پھر خاموش رھے يعني كسي غير كي قسم نہ كھائے، اور ايك روايت كے مطابق خدا كي جھوٹي قسم، غير خدا كي سچي قسم سے بھتر ھے، چنانچہ ابن تيميہ كھتا ھے كہ غير خدا كي قسم كھانا شرك ھے-
البتہ بعض علماء نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم كي قسم كو استثناء كيا ھے اور آپ كي قسم كو جائز جانا ھے، احمد ابن حنبل كے
دو قولوں ميں سے ايك قول يھي ھے، اسي طرح احمد ابن حنبل كے بعض اصحاب نے بھي اسي قول كو اختيار كيا ھے-
بعض ديگر علماء نے تمام انبياء كرام كي قسم كو جائز جانا ھے، ليكن تمام علماء كا يہ قول كہ انھوں نے بلا استثنيٰ مخلوقات كي قسم كھانے سے منع كيا ھے صحيح ترين قول ھے-
ابن تيميہ كا خاص شاگرد اور معاون ابن قيّم جوزي كھتا ھے : غير خدا كي قسم كھانا گناھان كبيرہ ميں سے ھے، پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمايا كہ جو شخص بھي غير خدا كي قسم كھاتا ھے وہ خدا كے ساتھ شرك كرتا ھے، لہٰذا غير خدا كي قسم كھانا گناہ كبيرہ ميں سر فھرست ھے-
اقتباس از تاريخ وھابيت؛ علي اصغر فقيھي
مترجم: اقبال حيدر حيدري

Adal e Elahi عدل الہٰي کے دلائل


1-حسن وقبح عقلي
پہلے يہ جاننا ضروري ہے کہ ہماري عقل اشياء کي ”‌خوبي“اور ”‌بدي“ کو قابل توجہ حد تک درک کرتي ہے -(يہ وہي چيز ہے،جس کا نام علماء نے ”‌حسن قبح عقلي“رکھا ہے)
مثلا ہم جانتے ہيںکہ عدالت واحسان اچھي چيز ہے اور ظلم وبخل بري چيز ہے-يہاں تک کہ ا ن کے بارے ميں دين و مذہب کي طرف سے کچھ کہنے سے پہلے بھي ہمارے لئے يہ چيز واضح تھي،اگر چہ دوسرے ايسے مسائل موجود ہيں جن کے بارے ميں ہمارا علم کافي نہيں ہے اور ہميں رہبران الہٰي و انبياء کي رہبري سے استفادہ کر نا چاہئے-
اس لئے اگر”‌اشاعرہ“ کے نام سے مسلمانوں کے ايک گروہ نے ”‌حسن قبح عقلي“ سے انکار کر کے اچھائي اور برائي کو پہچاننے کا راستہ -حتي عدالت وظلم وغيرہ کے سلسلہ ميں-صرف شرع ومذہب کو کافي جانا ہے ،تو يہ ايک بہت بڑا مغالطہ ہے-
کيونکہ اگر ہماري عقل نيک وبد کو درک کر نے کي قدرت وصلاحيت نہ رکھتي ہوتو ہميں کہاں سے معلوم ہو گا کہ خداوند متعال معجزہ کو ايک جھوٹے انسان کے اختيار ميں نہيں ديتا ہے؟ليکن جب ہم کہتے ہيں کہ جھوٹ بولنا بُرا اور قبيح ہے اور خدا سے يہ کام انجام پا نا محال ہے،تو ہم جانتے ہيں کہ خدا کے وعدے سب حق ہيں اور اس کے بيانات سب سچے ہيں -وہ کبھي جھوٹے کي تقويت نہيں کرتا ہے اور معجزہ کو ہر گز جھوٹے کے اختيار ميں نہيں سونپتا ہے-
اسي وجہ سے شرع ومذہب ميں جو کچھ بيان ہوا ہے اس پر اعتماد کيا جاسکتا ہے-
اس لئے ہم نتيجہ حاصل کرتے ہيں کہ حسن وقبح عقلي پر اعتقاددين و مذہب کي بنياد ہے-(توجہ کيجئے!)
اب ہم عدل الہٰي کے دلائل کي بحث شروع کرتے ہيں اور اس حقيقت کو سمجھنے کے لئے ہميں جاننا چاہئے:
2-ظلم کا سر چشمہ کيا ہے؟
”‌ظلم“کا سر چشمہ مندرجہ ذيل امور ميں سے ايک ہے:

الف- جہل:
بعض اوقات ظالم انسان حقيقت ميں نہيں جانتا ہے کہ وہ کيا کرتا ہے-نہيں جانتا ہے کہ وہ کس کي حق تلفي کرتا ہے،اور اپنے کام سے بے خبر ہے-
ب- احتياج:
کبھي دوسروں کے پاس موجود چيز کي احتياج انسان کو وسواس ميں ڈالتي ہے کہ اس شيطاني کام کو انجام دے، جبکہ اگر بے نياز ہو تا،اس قسم کے مواقع پر اس کے لئے ظلم کر نے کي کوئي دليل موجود نہ ہو تي-
ج- عجز و ناتواني:
بعض اوقات انسان راضي نہيں ہو تا کہ دوسروں کا حق ادا کر نے ميں کو تاہي کرے ليکن اس ميں يہ کام انجام دينے کي قدرت وتوانائي نہيں ہو تي ہے اور ناخواستہ ”‌ظلم“کا مرتکب ہو تا ہے-
د-خود پرستي ، حسد اور انتقامي جذبہ- گاہےمذکورہ عوامل ميں سے کوئي ايک مۆثرنہيں ہوتا ہے،ليکن”‌خود پرستي“اس امر کا سبب بنتي ہے کہ انسان دوسروں کے حقوق کو پائمال کرے -يا ”‌انتقامي جذبہ“اور”‌کينہ وحسد“ اسے ظلم وستم کر نے پر مجبور کرتے ہيں -يا کبھي”‌اجارہ داري“دوسروں کي حق تلفي کا سبب بن جا تي ہے-اور ان کے مانند دوسرے عوامل و اسباب-
ليکن چونکہ مذکورہ بري صفات اور عيوب ونقائص ميں سے کو ئي چيز خدا وند متعال کے وجود مقدس ميں نہيں پائي جاتي ،وہ ہر چيز کا عالم ،سب سے بے نياز،ہر چيز پر قادر اور ہر ايک کے بارے ميں مہر بان ہے،اس لئے اس کے لئے ظلم کا مرتکب ہو نا معني نہيں رکھتا ہے-
اس کا وجود بے انتہا اور کمال لا محدود ہے،ايسے وجود سے خير،نيکي،عدل وانصاف ،مہر باني اور رحمت کے علاوہ کوئي چيز صادر نہيں ہو تي ہے -
اگر وہ بد کاروں کو سزا ديتا ہے تو وہ حقيقت ميں ان کے کرتوتوں کا نتيجہ ہوتا ہے، جو انھيں ملتا ہے،اس شخص کے مانند جو نشہ آورچيزيں يا شراب پينے کے نتيجہ ميں مہلک بيماريوں ميں مبتلا ہو جاتا ہے -قرآن مجيد فر ماتا ہے:
<ھل تجزون اظ•لاّ ماکنتم تعلمون>(سورہ نمل/90)
”‌کيا تمھيں تمھارے اعمال کے علاوہ بھي کوئي معادضہ ديا جاسکتا ہے-“
3-قرآن مجيد اور عدل الہٰي
قابل توجہ بات ہے کہ قرآن مجيد ميں اس مسئلہ کے بارے ميں بہت تاکيد کي گئي ہے -
ايک جگہ پر فر ماتا ہے:
<اظ•نّ اللّٰہ لا يظلم النّاس شيئاً ولکنّ الناّس انفسھم يظلمون>
(سورہ يونس/44)
”‌اللہ انسانوں پر ذرّہ برابر ظلم نہيں کرتا ہے بلکہ انسان خودہي اپنے اوپر ظلم کيا کرتے ہيں-“
ايک دوسري جگہ پر فر ماتا ہے:
<اظنّ اللّٰہ لا يظلم مثقال ذرّة>
”‌اللہ کسي پر ذرّہ برابر ظلم نہيں کرتا ہے-“
روز قيامت کے حساب اور جزا کے بارے ميں فر ماتا ہے:
<ونضع الموازين القسط ليوم القيمة فلا تظلم نفس شيئاً> (سورہ انبياء/47)
”‌اور ہم قيامت کے دن انصاف کي ترازوقائم کريں گے اور کسي نفس پر ادنيٰ ظلم نہيں کيا جائے گا-“
(قا بل توجہ بات ہے کہ يہاں پر ”‌ميزان“سے مقصود نيک و بد کو تولنے کا وسيلہ ہے نہ اس دنيا کے مانند کو ئي ترازو)
اقتباس از کتاب: نو جوانوںکے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
مصنف: آيت اللہ ناصر مکارم شيرازي

Tuesday, 18 June 2013

جنات سيدہ نے اپنے شوہر سے اونچي زبان ميں بات کي ہو

ازدواجي زندگي کے آغاز سے لے کر آخر قيامت تک تاريخ اسلام ميں کوئي واقعہ نظر نہيں آتا جس سے يہ ظاہر ہوا کہ جنات سيدہ نے اپنے شوہر حضرت علي (ع) سے اونچي زبان ميں بات کي ہو يا کسي طرح کا گلہ شکوہ کيا ہو- وہ ہميشہ فرمان بردار رفيق حيات کي طرح علي (ع) کي مدد کرتيں اور ان کا حوصلہ بڑھانے کي ہر ممکن کوشش کرتي تھيں- انہوں نے اپنے شوہر سے کبھي بے جا فرمائش نہيں کي- حضرت فاطمہ (س) گھر کا سارا کام خود کرتي تھيں- خود چکي چلاتي تھيں- کھانا خود تيار کرتي تھيں- شوہر اور بجوں کے کپڑے خود دھوتي تھيں- برتن اور گھر خود صاف کرتي تھيں- اس کے علاوہ عبادت ميں بھي اس منزل پر تھيں کہ انہيں اسلام کي خاتون اول کا درجہ ديا جاتا ہے- روايت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول خدا (ص) ہر سفر کے موقع پر جس شخصيت سے سب سے آخر ميں ملتے اور سفر سے واپسي پر سب سے پہلے ملتے وہ حضرت فاطمہ (س) ہي تھيں-
فاطمہ ظہرا (س) کا ہي فرمانا ہے کہ " عورت کے لئے سب سے بہترين شے يہ ہے کہ وہ کبھي کسي نامحرم پر نظر نہ ڈالے نہ خود کو اس کي نظروں کے سامنے ظاہر ہونے دے-"

ہجرت سے لے کر جب تک آپ (س) بقيد حيات رہي ہيں کوئي بھي ايسا اسلامي مسئلہ نہ تھا جس ميں جناب سيدہ (س) نے اپنا کردار نہ پيش کيا ہو- رسول خدا (ص) کا اپني بيٹي کي تعظيم کرنا اس امر کي واضح دليل ہے کہ جناب سيدہ (س) کس عظيم شخصيت اور کردار کي مالک تھيں- يہ حقيقت اس وقت واضح ہوجاتي ہے جب ہم اس امر کو پيش نظر رکھيں کہ پيغمبر اسلام (ص) کا ہر قول و فعل رضائے الہي کے مطابق رہا ہے-
حضرت فاطمہ (س) کي حيات طيبہ حق پسند سلسلہ نسوان کے ليے بہترين نمونہ ہے- انہوں نے اپنے شوہر نامدار کي فرمانبرداري کا وہ بے مثل نمونہ پيش کيا ہے جو ہر مسلمان عورت کے ليے سبق آموز ہے- ان کا تقوي و پرہيزگاري خواتين عالم کے ليے بہترين و بے نظير رہنما ہے-

حضرت فاطمہ (س) کے نام کي وجہ تسميہ

پيغمبر اسلام (ص) سے منقول ہے کہ حضرت فاطمہ (س) سے پيغمبر اکرم (ص) نے دريافت کيا کہ کيا تم جانتي ہو کہ تمہارا نام فاطمہ کيوں رکھا گيا؟
حضرت علي (ع) نے عرض کيا: يا رسول اللہ (ص)! آپ ہي اس کي وجہ تسميہ بيان فرمائيے، پيغمبر (ص) نے ارشاد فرمايا: اس کي وجہ يہ ہے کہ بروز قيامت خداوند عالم فاطمہ (س) اور اس کے شيعيوں کو آتش جہنم سے محفوظ رکھے گا-
(ذخائر العقبي صفحہ 26، ينابيع المودة صفحہ 194، الصواعق الحرقہ صفحہ 245)
پيغمبر اسلام (ص) جناب فاطمہ کي شان ميں فرمايا:
"قيامت کے دن ميري بيٹي فاطمہ ايسے بہشتي ناقہ پر سوار ہوکر ميدان محشر ميں وارد ہوگي جس کي مہار مرواريد کي، چار پائے زمرد سبز کے، آنکھيں ياقوت سرخ کي اور اس پر ايک قبہ نور ہوگا جس سے ہر شي ديکھي جا سکے گي، اس ناقہ کے سر پر ايک تاج ہوگا جس کے گرد ياقوت کے ستر پائے ہوں گے وہ اسي طرح ضو افشاني کريں گے جس طرح آسمان پر ستارے اس سواري کے ذہني طرف ستر ہزار ملک، بائيں طرف ستر ہزار ملک اور اس ناقہ کي مہار جبرئيل کے ہاتھ ميں ہوگي اور وہ بہ
آواز بلند ندا ديں گے! اے اہل محشر تم اپني آنکھيں بند کر لو ابھي فاطمہ بنت محمد (ص) گزريں گي- يہ سنتے ہي سب کے سب يہاں تک کہ پيغمبر و انبياء اور شہداء، صديقين بھي اپني آنکھيں بند کر ليں گے، فاطمہ (س) الہي کے سامنے کھڑي ہوجائيں گي اس وقت صدائے الہي گونجے گي: اے ميرے حبيب کي بيٹي تم جو بھي مجھ سے مانگو گي ميں دوں گا اور جس کي تم شفاعت کروگي ميں اس گو قبول کروں گا، فاطمہ (س) کہيں گي اے ميرے خدا ميري ذريت اور ميرے شيعيوں کي شفاعت قبول فرما، بار ديگر صدائے الہي بلند ہوگي: کہاں ہيں ذريت فاطمہ (س) اور اس کي پيروي کرنے والے؟ کہاں ہيں اس کے ذريت کے دوست؟ اس وقت ايک گروہ آئے گا جس کا فرشتہ رحمت حصار کئے ہوگا اور فاطمہ (س) ان سب کو لے کر داخل بہشت ہوں گي-
(امالي صدوق صفحہ 25، بحار الانوار جلد 43، صفحہ 261، 220)

فاطمہ (س) کا مہر

حضرت فاطمہ زہراء، اسوہ کامل
حضرت فاطمہ (س) انتہائي صاحب عصمت و طہارت تھيں
حضرت علي (ع) خدمت رسول (ص) ميں حاضر ہوئے مگر کچھ کہنے نہ پائے- دوسري مرتبہ پھر اسي ارادہ کے تحت خدمت پيغمبر (ص) ميں حاضر ہوئے مگر کچھ کہنے نہ پائے، تيسري مرتبہ جب پيغمبر (ص) کي خدمت ميں پہنچے تو ختمي المرتبت (ص) نے خود دريافت کيا-
اے علي (ع) کيا کوئي حاجت ہے؟
علي (ع) نے فرمايا: جي ہاں!
مگر اظہار نہيں کر سکے- تب خود سرور کائنات (ص) نے فرمايا: "کيا فاطمہ (س) سے عقد کي خواہش رکھتے ہو؟"
حضرت (ص) نے سر جکھا کر ہاں کہہ ديا-
حضرت رسالت مآب (ص) جناب فاطمہ (س) کے حجرے ميں تشريف لے گئے اور فرمايا: "بيٹي علي (ع) تم سے نکاح کے خواہش مند ہيں- تمہاري کيا رائے ہے؟"

حضرت فاطمہ (س) نے قبول کرتے ہوئے سر تسلسم خم کرديا-
پيغمبر اسلام (ص) واپس تشريف لائے اور فرمايا:
" علي (ع) مبارک ہو! فاطمہ (س) کو رشتہ منظور ہے- مگر مجھے اس سلسلے ميں حکم خدا کا انتظار ہے-"
پيغمبر (ص) علي (ع) سے مخاطب تھے کہ جبرئيل امين خوشخبري لے کر حاضر ہوئے کہ پروردگار بعد درود و سلام ارشاد فرماتا ہے کہ " ہم نے جنت ميں علي (ع) کا نکاح فاطمہ (س) سے کرديا ہے- آپ بھي فاطمہ (س) کا نکاح علي (ع) سے کرديں-"
رسول خدا (ص) علي (ع) کو رضائے الہي سے مطلع فرمايا- ساتھ ہي پيغمبر (ص) نے سوال کيا:
" اے علي (ع) فاطمہ (س) کو مہر دينے کے لئے تمہارے پاس کيا ہے؟"
تو اميرالمومنين (ع) فرماتے ہيں:
" ميرے پاس ايک تلوار ہے، ايک ڈھال ہے- ايک اونٹ ہے، ايک گھر ہے اور زرہ ہے مال دنيا کے طور پر-"
اس پر پيغمبر (ص) اسلام نے فرمايا:
"گھر تو ضروري چيز ہے- اونٹ سفر اور تجارت ميں کام آتا ہے- تلوار اور ڈھال جنگ ميں کام آتي ہيں- مگر ہاں تم جوان مرد ہو اور بہادر ہو- زرہ کے بغير بھي تمہارا کام چل سکتا ہے- لہذا اسے فروخت کرکے فاطمہ (س) کا مہر ادا کرو-"
الغرض زرہ فروخت کي گئي- اور اس رقم سے رسول اکرم (ص) نے بيٹي فاطمہ (س) کا جہيز خريد اور وليمہ کيا-
حضرت فاطمہ (س) کا جہيز نہايت ہي قليل تھا- جس ميں چٹائي، چکي، چرخا اور چادر کے علاوہ ايک مشکيزہ اور کچھ مٹي کے برتن تھے-

فاطمہ (س) اپنے والد کي وفات کے بعد زيادہ دن زندہ نہ رہيں

بہت سے قرائن موجود ہيں، جن سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کي يہ مثالي خاتون اپنے والد کي وفات کے بعد زيادہ دن زندہ نہ رہيں، نہ صرف يہ کہ آپ کو آرام و سکون ہي نصيب نہيں ہوا بلکہ نہايت ہي رنج و محسن کے ساتھ زندگي بسر کي-
آخر کار روحي و جسمي مصائب و آلام نے آپ کي جان لے لي-
خايفہ دوم ايک گروہ کے ساتھ در فاطمہ (س) پر پہنچے اور چلا کر کہا:
جو لوگ گھر کے اندر ہيں باہر نکل آئيں ورنہ ميں گھر کو اس کے مکينوں کے ساتھ جلا دوں گا- بعض لوگوں نے اسے ظلم سے باز رکھنے کے ليے کہا: اس گھر ميں فاطمہ (س) بھي ہيں-

ليکن خليفہ دوم نے چلا کر کہا : کوئي بھي ہو- ابھي رسول اکرم (ص) کا کفن بھي ميلا نہيں ہوا تھا کہ حالات نے فاطمہ کو يہ کہنے پر مجبور کر ديا کہ ميں نے تم سے زيادہ بد خو کوني مرد نہيں ديکھا- رسول (ص) کا جنازہ تم نے ہمارے پاس چھوڑا اور خود اپنے کام کے چکر ميں چلے گئے- آخر تم ہمارے در پے کيوں ہو؟ اور ہمارا حق ہميں کيوں نہيں ديتے؟ عمر بجائے اس کے فاطمہ (س) کے کلام سے عبرت حاصل کرتے، ابوبکر کے پاس گئے اور ان سے کہا : علي کو حاضر کئے جانے کا حکم صادر کرو- اب قنفذ کے ذريعہ پيغام بھيجا کہ علي (ع) مسجد ميں آئيں، ليکن علي (ع) مسجد ميں نہ آئے تو عمر دوبارہ در فاطمہ (س) پر آئے دروازہ کھٹکٹھايا- فاطمہ (س) باہر نکليں اور شکوہ آميز لہجہ ميں فرمايا:
بابا! اے اللہ کے رسول (ص)! آپ کے بعد ہم ابن خطاب اور ابن قحافہ سے کيا ستم ديکھ رہے ہيں!؟

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں

”‌واعلموا انما غنمتم من شئي فان للّہ خمسہ و للرسول و لذي القربيٰ واليتٰميٰ و المساکين و ابن السبيل و ان کنتم آمنتم باللہ و ما انزلنا علي عبدنا يوم الفرقان يوم التقي الجمعان و اللہ علي کل شئي قدير “ (1)
”‌ اور يہ جان لو کہ تمھيں جس چيز سے بھي فائدہ حاصل ھو اس کا پانچواں حصہ اللہ ،رسول ،رسول کے قرابتدار ، ايتام ،مساکين اور مسافران غربت زدہ کے لئے ھے اگر تمھارا ايمان اللہ پر ھے اور اس نصرت پر ھے جو ھم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فيصلہ کے دن جب دو جماعتيں آپس ميں ٹکرا رھي تھيں نازل کي تھي ، اور اللہ ھي ھر شئي پر قادر ھے “ -
آيت کي تفسير سے پھلے مسئلہ ”‌خمس “ ميں شيعہ و سني نظريات کي تھوڑي وضاحت ضروري ھے -
خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں

علمائے شيعہ کے نظريہ کے مطابق ، خمس کا تعلق کسي خاص منفعت و فائدہ سے نھيں بلکہ ھر طرح کي زائد منفعت سے ھوتا ھے -
فرض کيجئے ! آپ پچاس ھزار روپيہ ميں کوئي مال خريدتے ھيں اور پھر اسے اسي قيمت ميں فروخت کرديتے ھيں ، ايسي صورت ميں آپ کو کوئي فائدہ نھيں پھونچتا ، ليکن اگر آپ اسے خريدي ھوئي قيمت سے زيادہ ميں بيچيں تو آپ کو حصولِ سرمايہ کے ساتھ ساتھ فائدہ بھي ھوتا ھے ، پچاس ھزار روپيہ آپ کا سرمايہ ھے اور باقي پيسے آپ کي منفعت و درآمد ھے -
چونکہ آپ نے اس معاملہ ا و رخريد و فروخت ميں اپنا وقت و محنت صرف کي ھے اسي لئے آپ اس حاصل شدہ منفعت و درآمد سے اپنا اور اپنے اھل و عيال کے ايک سال کا خرچ نکال سکتے ھيں ، اس شرط پر کہ اسراف نہ کريں - اسکے بعد جو پيسہ بچتا ھے اسے در آمد زائد و منفعت اضافي کھتے ھيں اور اسي زائد درآمد پر خمس واجب ھوتا ھے-يعني اصل سرمايہ و سالانہ خرچ سے جو رقم بچ جائے اس ميں خمس نکلتا ھے - البتہ نا جائز در آمد و منفعت ميں خمس بے معني ھے -
حصول منفعت اوردر آمد کے مختلف ذرائع ھيں کہ جن ميں سے ايک کا ذکر اوپر گزر چکا ھے -
فائدہ حاصل کرنے کا دوسرا ذريعہ ايسا خزانہ اور دفينہ وغيرہ ھے جس کے مالک کا علم نہ ھو - چونکہ گزشتہ زمانے ميں آج کي طرح بينک وغيرہ نھيں تھالھذا لوگ اپنے روپيہ ،پيسہ ،زر و جواھرات کو چور ڈاکوۆں کے خوف سے زمين کے اندر دفن کر ديا کرتے تھے پھر بسا اوقات اس جگہ کو فراموش کر ديتے يا ورثاء کو اطلاع دينے کي فرصت نہ مل پانے کے سبب مالکين اپني قيمتي چيزيں کھو بيٹھتے تھے - آج اگر اس طرح کي چيزيں کسي کے ھاتہ لگ جائيں تو اس پر بھي خمس واجب ھو گا - کان اور غوطہ خوري کے ذريعہ ملنے والي اشياء کا بھي يھي حکم ھے - فقہ شيعہ ( جسکا اصلي منبع قرآن مجيد اور احاديث معصوم عليھم السلام ھے ) کے مطابق حصول منفعت کا ايک ذريعہ غنائم جنگي بھي ھے - جس کا پانچواں حصہ بعنوان خمس جدا کر کے بقيہ اموال سپاھيوں ميں تقسيم ھونا چاھئے - ( جاري ہے 

فاطمہ (س) فاطمہ (س) ہيں


اصلاح معاشرہ ميں خواتين کا اہم کردار
امام خميني (رح): حضرت فاطمہ (س) پر خاندان نبوت کو ناز ہے
جناب فاطمہ کے دونوں بيٹے اسلام پر قربان ہوگئے
مگر حضرت فاطمہ (س) خود اتني عظمتوں اور فضيلتوں کي مالکہ ہيں کہ پروردگار عالم ملائکہ کے سامنے ان کي نسبت سے اہل بيت عليہم السلام کا تعارف فرماتا ہے- هم فاطمة و ابوها و بعلها و بنوها. يعني فاطمہ (س) کے باپ رسول (ص)، فاطمہ (س) کے شوہر امام علي (ع)، فاطمہ کے بيٹے امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) ہيں- اس عقيدہ و نظريہ کے مطابق ايراني مفکر و دانشور مرحوم ڈاکٹر علي شريعتي کا کہنا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کو صرف کسي عظيم ہستي کي نسبت سے محترم و معززمت جانو بلکہ فاطمہ (س) کي ذات والا صفات سے سمجھو- کيونکہ فاطمہ (س) فاطمہ (س) ہيں- يہ بات بالکل سچ ہے کہ سماج و معاشرہ کي اصلاح و تطہير و تعمير و ترقي کے ليے تعليم يافتہ، نيک اور مہذب خواتين کي بڑي ضرورت ہے- زمانہ جاہليت ميں عرب کے سماج ميں يہ کج فکري، خام خيالي اور گمراہي عام تھي کہ لڑکي باپ کے ليے باعث ننگ و عار سمجھي جاتي تھي- اس ليے لڑکي کو پيدا ہوتے ہي زندہ در گور کرديا کرتے تھے- مگر فاطمہ زہرا (س) کي آمد شريف سے عربوں کي سوچ ميں ايسي بڑي نمايان تبديلي آئي کہ قيامت تک کے ليے ہر انسان يہ ماننے پر مجبور ہوگيا کہ واقعا اگر ايک لڑکي نيک، تعليم يافتہ، اور حسن اخلاق و عمل سے آراستہ ہو تو نہ صرف اپنے والدين،
خاندان بلکہ پورے قوم و قبيلہ اور ملک و ملت کے ليے باعث عز و افتخار بھي ہوا کرتي ہے- شايد ان ہي وجوہات کے سبب پيغمبر اسلام (س) نے اس وقت تک اصلاح معاشرہ اور حکام شريعت کي تبليغ کا کام شروع نہيں کيا جب تک فاطمہ (س) سن بلوغ کو نہيں پہنچيں- لہذا اصلاح معاشرہ کے ليے اعلي تعليم يافتہ اور بلند کردار خواتين کے بغير کاميابي نا ممکن ہے- و ما علينا الا البلاغ-

ظہور کي غير حتمي علامات


ظہور  کي حتمي علامات
غير حتمي علامات کي فہرست بہت طويل ہے اور بعض حضرات نے سيکڑوں سے گزار کر ان علامات کو ہزاروں کي حدوں تک پہنچا ديا ہے اور حقيقت امر يہ ہے کہ ان ميں اکثر باتيں علامات نہيں ہيں، بلکہ دنيا کے ظلم و جور سے بھر جانے کي تفصيلات ہيں اور يہي وجہ ہے کہ ان علامات ميں ہر برائي کا تذکرہ موجود ہے جو دنيا کے ظلم و جور اور فسادات سے مملو ہو جانے کا خاصہ ہے- علامات کے طور پر حسب ذيل امور کا تذکرہ کيا جاتا ہے:
1- مسجد کوفہ کي ديوار کا منہدم ہو جانا-
2- شط ِ فرات سے کوفہ کي گليوں ميں نہر کا جاري ہو جانا-
3- شہر کوفہ کا تباہي کے بعد دوبارہ آباد ہونا-
4- دريائے نجف ميں پاني کا جاري ہو جانا-
5- فرات سے نجف کي طرف نہر کا جاري ہو جانا-
6- ستارہ جدي کے قريب دمدار ستارہ کا ظاہر ہونا-
7- دنيا ميں شديد قسم کے قحط کا پيدا ہونا-
8- اکثر شہروں اور ملکوں ميں زلزلہ اور طاعون کا پيدا ہونا-
9- مسلسل قتل و خون کا ہونا-
10- قرآن مجيد کا زيورات سے آراستہ کرنا، مساجد ميں سونے کا کام ہونا اور ميناروں کا بلند ترين ہونا-
11- مسجد براثا کا تباہ ہو جانا-
12- مشرق زمين ميں ايک ايسي آگ کا ظاہر ہونا جس کا سلسلہ تين روز يا سات روز تک جاري رہے-
13- سارے آسمان پر سرخي کا پھيل جانا-
14- کوفہ ميں ہر طرف سے قتل و غارت کا برپا ہونا-
15- ايک جماعت کا بندر اور سور کي شکل ميں مسخ ہو جانا-
16- خراسان سے سياہ پرچم کا برآمد ہونا-
17- ماہِ جمادي الثاني اور رجب ميں شديد قسم کي بارش کا ہونا-
18- عربوں کا مطلق العنان اور آوارہ ہو جانا-
19- سلاطينِ عجم کا بے آبرو اور بے وقار ہو جانا-
20- مشرق سے ايک ايسے ستارہ کا برآمد ہونا جس کي روشني چاند جيسي ہو اور شکل بھي دونوں طرف سے کج ہو-
21- تمام عالم ميں ظلم و ستم اور فسق و فجور کا عام ہو جانا جس کے بارے ميں مولائے کائناتں نے اپنے خطبہ ميں فرمايا تھا کہ ”‌جب لوگ نماز کو مردہ بنا ديں گے، امانتوں کو ضائع کر ديں گے، جھوٹ کو جائز بنا ليں گے، سود کھائيں گے، رشوت ليں گے، عمارتوں کو انتہائي مستحکم بنائيں گے، اقرباء سے قطع تعلق کر ليں گے، خواہشات کا اتباع کريں گے، خون کو سستا بنا ليں گے، تحمل کو دليل کمزوري اور ظلم کو باعث فخر سمجھ ليں گے، امراء فاجر ہوں گے، وزراء ظالم ہوں گے، عرفاء خائن ہوں گے اور قرّاء فاسق ہوں گے، جھوٹي گواہيوں کا زور ہوگا- فجور کو اعلانيہ انجام ديا جائے گا، قرآن مجيد کو زيورات سے آراستہ کيا جائے گا، مسجدوں ميں سنہرا کام ہوگا، مينارے طويل ترين ہوں گے، اشرار کا احترام ہوگا، صفوں ميں اژدہام ہوگا اور خواہشات ميں اختلاف ہوگا، عہد توڑے جائيں گے، عورتوں کو طمع دنيا ميں شريک تجارت بنايا جائے گا، فساق کي آواز بلند ہوگي اور اسے سنا جائے گا، رذيل ترين آدمي سردار قوم ہوگا، فاجر سے اس کے شر کے خوف سے ڈرا جائے گا، جھوٹے کي تصديق کي جائے گي، خائن کو امين بنايا جائے گا، ناچ گانے کا کاروبار عام ہوگا اور امت کا آخري آدمي پہلے آدمي پر لعنت کرے گا، عورتيں گھوڑوں پر سواري کريں گي، مرد عورتوں سے مشابہ اور عورتيں مردوں سے مشابہ ہو جائيں گي، لوگ زبردستي گواہي پيش کريں گے اور بغير حق کو سمجھے ہوئے گواہي ديں گے، علم دين غير دين کے ليے حاصل کيا جائے گا، عمل دنيا کو آخرت پر ترجيح دي جائے گي، دل بھيڑيوں جيسے اور لباس بکريوں جيسے ہوں گے، دل مردار سے زيادہ بدبودار اور ايلوا سے زيادہ تلخ ہوں گے- اس وقت بہترين مقام بيت المقدس ہوگا جس کے بارے ميں لوگ تمنا کريں گے کہ کاش ہماري منزل وہاں ہوتي-
اس کے علاوہ اور بھي علامات کا ذکر کيا گيا ہے جن سے اس دور کي عکاسي ہوتي ہے جب ظلم و جور اور فسق و فجور کا دور دورہ ہوگا اور عدل و انصاف اور دين و ايمان دم توڑ ديں گے-

عقيده مہدويت کے لاحق خطرات


عقيده مہدويت کے لاحق خطرات

دنيا کي ہر اہم چيز اپني اہميت کے پيش نظر خطرات کي زد ميں بھي ہے عقيدہ مہدويت کہ جو انساني فردي اور اجتماعي زندگي کے ليے حيات بخش ہے ايک باعظمت مستقبل کي نويد ہے اور لوگوں کو ظلم و ستم کے مدمقابل حوصلہ اور صبر کي قوت ديتا ہے يقينا يہ بھي مختلف اندروني و بيروني خطرات کي زد ميں ہے – ہم يہاں زمانہ غيبت ميں اس عقيدہ کو لاحق ممکنہ خطرات کے بارے ميں گفتگو کريں گے –
بعض لوگ امام کے ظہور اور فرج کي دعا ميں انتظار فرج سے مراد معمولي حد تک امر بالمعروف و نہي عن المنکر مراد ليتے ہيں اس سے بڑھ کر اپنے ليے کوئ ذمہ داري نہيں سمجھتے –
جبکہ بعض ديگر معمولي حد تک بھي امر بالمعروف و نہي عن المنکر کے قائل نہيں ہيں بلکہ انکا نظريہ ہے کہ غيبت کے زمانہ ميں ہم کچھ نہيں کرسکتے اور نہ ہماري کوئی ذمہ داري ہے امام زمانہ جب ظہور کريں گے تو خود سب امور کي اصلاح فرمائيں گے –
ايک گروہ کا نظريہ ہے کہ لوگوں کو انکے حال پر چھوڑ دينا چاہے جو چاہيں کريں جب ظلم و فساد بڑھے گا تو امام ظہور کريں گے-
ايک چوتھا گروہ انتظار کي يہ تفسير کرتا ہے کہ نہ صرف يہ کہ لوگوں کو گناہ کرنے سے نہ روکيں بلکہ خود بھي گناہ کرو تاکہ امام کا ظہور جلد ہو-
انہي لوگوں ميں سے بعض يہ کہتے ہيں کہ زمانہ غيبت ميں ہر حکومت کسي بھي شکل ميں ہو باطل ہے اسلام و شريعت کے خلاف ہے کيونکہ روايات ميں يہ آيا ہے کہ قائم کے ظہور سے پہلے ہر علم اور پرچم باطل ہے-
ايسے نظريات کے نتائج:
1)اپني يا معاشرہ کي موجودہ غلط صورت حال پر قانع ہونا اور بہتر وضيعت کےليے کوشش نہ کرنا –
2) پسماندگي
3) اغيار کي غلامي
4) نا اميد ہونا اور جلد شکست قبول کرنا
5) حکومت اور ملک کا کمزور ہونا

6)ظلم و ستم کا وسيع ہونا اور اس کے مد مقابل سست رد عمل
7) ذاتي اور اجتماعي زندگي ميں ذات اور بد بختي کو قبول کرنا
8) سست اور غير ذمہ دار ہونا
9) امام کے قيام اور اقدامات کو مشکل بنانا چونکہ جتنا فساد اور تباہي زيادہ ہوگي امام کا س سے مقابلہ اتنا ہي سخت اور طولاني ہوگا
10) بہت سي آيات اور روايات پر عمل درآمد نہ ہونا يعني وہ آيات و روايات جو امر بالمعروف و نہي عن المنکر ظ¬سماجي تربيت اور سياست کے حوالے سے راہنما ہيں ظ¬کفار اور مشرکين کے ساتھ طر ز عمل ديت ظ¬حدود تعزيرات اور محروم لوگوں کے دفاع کے حوالے ہيں-
ايسے منحرف نظريات کے اسباب:
اسے منحرف نظريات کي وجوہات اور اسباب مندرجہ ذيل ہيں:
1: کوتاہ فکري اور دين کے حوالے سے کافي بصيرت کا نہ ہونا
2: اخلاقي انحرافات (دوسرے نظريے کے قائل)
3: سياسي انحرافات (چوتھے اور پانچويں نظريے والے)
4: يہ وہم رکھنا کہ امام زمانہ طاقت کے زور سے يا معجزہ کے ذريعے تمام کاموں کو انجام ديں گے لہذا انکے ظہور کےليے اسباب فراہم کرنے کي ضرورت نہيں ہے-
5: يہ وہم رکھنا کہ امام زمانہ سے ہٹ کر کوئ شخض بھي مکمل طور پر برا ئيوں اور فساد کو ختم نہيں کرسکتا اور معاشرہ کے تمام پہلوں ميں خيروصلاح کو نہيں جاري کرسکتا-
6: اچھے ہدف تک پہنچنے کےليے ہر قسم کے وسيلہ کو استعمال ميں لايا جا سکتا ہے لہذا جلد ظہور کے زمانہ تک پہنچے کےليے فساد اور برائ کو عام کيا جاۓ-
7: وہ روايات جو آخري زمانہ ميں طلم و جور کي بات کرتي ہيں انہيں درست نہ سمجھنا بلکہ يہ غلط فکر کرنا کہ جو ہوتا ہے وہ ہوتا رہے ہمارا ان برائيوں سے کوئ تعلق نہيں يا يہ کہ دوسروں کو بھي ان برائيوں کي طرف دعوت دينا-
8: ايسے سياستتدانوں يا وہ سياست جو اسلامي معاشروں کو زوال کي طرف لے جا رہي ہے ان سے بڑھ کر خود ابھي ايسي روايات کو غلط انداز سے سمجھنا کہ جو ظہور سے پہلے ہر علم کو باطل قرار دے رہي ہيں
ايسے منحرف نظريات کا مقابلہ اور علاج
ان نظريات کا تفصيلي جواب دينے سے پہلے چند مفيد نکات جاننا ضروري ہے :
1: ان غلط نظريات اور غلط سمجھنے کے مد مقابل دين ميں علم و بصيرت پيدا کرنا –
2: ہوا و ہوس کے مد مقابل تقوي
3: سياسي اور معاشرتي ميدانوں ميں علم و بصيرت سے کام لينا تاکہ دشمن اور دوست کي پہچان ہو اور سياست دانوں کي فعاليت واضح ہو-
4: ديني و سياسي اور معاشرتي مسائل کے بيان ميں علماء اور دانشوروں کا واضح اور روشن کردار –
5: ايسے سچے اور مخلص علماء کي پيروي کہ جو امام کے نائب عام شمار ہوتے ہوں
6: پسماندہ اور جمود ميں ڈالنے والے نظريات کو پس پشت ڈالنا –

Anmol Moti




اللہ کے نام
اور زیباترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو اور جو اللہ کے اسماء میں کج روی کرتے ہیں انہیں چھوڑ دو، وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے
سوره الاعراف (7) _ آیت : 180
غافل لوگ
اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں۔
سوره الاعراف (7) _ آیت : 179
بری مثال
بدترین مثال ان لوگوں کی ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں - راہ راست وہ پاتا ہے جسے اللہ ہدایت عطا کرے اور جنہیں اللہ گمراہ کرے وہ خسارے میں ہیں
سوره الاعراف (7) _ آیات : 178-177
خواہشات کی پیروی
اور اگر ہم چاہتے تو ان ( آیات) کے طفیل اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے تو اپنے آپ کو زمین بوس کر دیا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن گیا تھا، لہٰذا اس کی مثال اس کتے کی سی ہو گئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تو بھی زبان لٹکائے رہے اور چھوڑ دو تو بھی زبان لٹکائے رکھے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں، پس آپ انہیں یہ حکایتیں سنا دیجیے کہ شاید وہ فکر کریں۔
سوره الاعراف (7) _ آیت : 176
گمراہ
اور انہیں اس شخص کا حال سنا دیجیے جسے ہم نے اپنی آیات دیں مگر وہ انہیں چھوڑ نکلا پھر شیطان نے اس کا پیچھا کیا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا
سوره الاعراف (7) _ آیت : 175
اقرار
اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، (یہ اس لیے ہوا تھا کہ) قیامت کے دن تم یہ نہ کہ سکو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔
سوره الاعراف (7) _ آیت : 172
شکرگزار لوگ
اور پاکیزہ زمین میں سبزہ اپنے رب کے حکم سے نکلتا ہے اور خراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے یوں ہم شکر گزاروںکے لیے اپنی آیات کو مختلف اندا ز میں بیان کرتے ہیں
سوره الاعراف (7) _ آیت : 58
اللہ کی رحمت
اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوش خبری کے طور اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ابرگراں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر بادل سے مینہ برسا کر اس سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو بھی (زمین سے) نکالیں گے شاید تم نصیحت حاصل کرو ۔
سوره الاعراف (7) _ آیت : 57
فساد برپا نہ کرو
اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرو عاجزی اور خاموشی کے ساتھ، بے شک وہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا - اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو، اللہ کی رحمت یقینا نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔
سوره الاعراف (7) _ آیات : 55-55
خالق اور حاکم
تمہارا رب یقینا وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا، وہ رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے جو اس کے پیچھے دوڑتی چلی آتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے سب اسی کے تابع فرمان ہیں آگاہ رہو! آفرینش اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے، بڑا با برکت ہے اللہ جو عالمین کا رب ہے۔
سوره الاعراف (7) _ آیت : 54

Islam ki Mukhalfat aur Tarveej


آج اسلام  کا سورج اپني پوري آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور اسکي روشني سے شکست خوردہ مغرب کي آنکھيں چندھيا رہي ہيں، جس کي وجہ سے يہ اندھيرے کے چمگادڑ اللہ کے پيارے نبي (ص) کي شان ميں گستاخي کے مرتکب ہو رہے ہيں، ليکن ايمان کے متوالوں کي شان بھي بڑھتي جا رہي ہے اور اسلام کي روشني بھي تيزي سے پھيل رہي ہے- يورپ  کے بہت سارے علاقوں ميں مساجد کي تعمير کو روکا جاتا ہے اور مساجد کے مناروں پر پابندي عائد ہے - بعض  يورپي ممالک ميں اسلامي ثقافت کو روکنے کے ليۓ قانون سازي بھي کي جا رہي ہے - غرض يہ کہ اسلام فوبيا کو عام کرنے کے ليۓ  اسلام مخلف قوّتوں نے ہر طرح کے  طريقے اپناۓ ہوۓ ہيں -   ان تمام پہلوۆں کے باوجود بھي يورپ کے وہ  ذي شعور لوگ جن کا نصيب اچھا ہوتا ہے وہ  اسلام کي طرف راغب ہو رہے ہيں - مغربي خواتين ميں اسلام   کي طرف بہت زيادہ رحجان پايا جاتا ہے -  مغرب کي عورتيں اسلام کي جانب کيوں مائل ہو رہي ہيں؟ يہ سوال يقيناً قابل غور ہے- نائن اليون کے تقريباً ڈھائي سال بعد بائيس فروري2004ء کو سنڈے ٹائمز نے ’’اسلامي برطانيہ ممتاز افراد کو متاثر کر رہا ہے‘‘ (Islamic Britain lures top people) کے عنوان سے شائع ہونے والي اپني ايک
رپورٹ ميں بتايا کہ ’’مغربي اقدار سے غيرمطمئن اور مايوس ہونے کے بعد چودہ ہزارگورے برطانويوں نے اسلام قبول کرليا ہے اوربرطانيہ کے کئي چوٹي کے لينڈ لارڈز، سيلي بريٹيز اورحکومت کي ممتاز شخصيتوں کي اولاديں مسلم عقيدے کے سخت اصول اپنا چکي ہيں-‘‘
اس کے باوجودمغرب ميں انتہائي بااثر قوتوں کي جانب سے اہل مغرب خصوصاً مغربي عورتوں کو اسلام سے متنفر کرنے کي منظم کوششيں عروج پر ہيں -افغانستان اور عراق پر حملے ميں امريکہ کے سب سے بڑے اتحادي سابق برطانوي وزير اعظم ٹوني بلير کي خواہر نسبتي لارن بوتھ (Lauren Booth) جيسي نماياں شخصيت سميت ہزاروں مغربي عورتيں دس سال کے اسي عرصے ميں دائرہ اسلام ميں داخل ہوئي ہيں-(انسٹي ٹيوٹ آف پاليسي اسٹڈيز اسلام آباد )خودفرماتي ہيں کہ ”‌ميں اسلام قبول کرنے کے ليے ہرگز سرگرم نہ تھي، نہ ہي ميں اسلام کا مطالعہ کر رہي تھي، بات دراصل يہ ہے کہ جب آپ ايک مسلم معاشرے ميں مسلمانوں کے درميان رہ کرايک طويل عرصے سے کام کر رہے ہوں تو لامحالہ ان سے روزمرہ کي گفتگو کے دوران اُن کے دين اور قرآن کے متعلق کچھ نہ کچھ معلومات حاصل ہوتي ہي رہتي ہيں، ميں يہ سمجھتي ہوں کہ ميں نے اتفاقاً مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے تھوڑا بہت قرآن کے بارے ميں جانا، اس دوران يہ بھي اندازہ ہوا کہ اگر آپ نے اسلام ميں دلچسپي ليتے ہوئے اسکے بارے ميں جاننے کي خواہش ظاہرکي تو مسلم اُمہ کي تمام تر محبت،يگانگت اور خلوص کو آپ يقينا محسوس کئے بنا نہ رہ سکيں گے“-
يورپ ميں اسلام کي اشاعت بڑي تيزي کے ساتھ جاري ہے اور اميد کي جا رہي ہے کہ وہ دن اب  دور نہيں جب تمام دنيا پر اسلام کا پرچم لہراۓ گا 

Tuesday, 4 June 2013

The Holographic Universal of your Mind


Whether you choose to believe it or not, whether you can comprehend it or not, there is one absolute scientific reality:
You live and dwell within your imagination and your imagination alone!
Electromagnetic waves, transmitted to your brain via all of your senses, are evaluated by your brain's existing platform of data, creating the multi-dimensional holographic world in which you live. Regardless of who you are, you do not live or exist in the outside world - you live in an imaginary world that exists inside of your mind.
Any particular thing, that you sense or judge, is no more than your perception of an instance of its existence.
Everyone lives and will continue to live, indefinitely, in his or her own created world. Your heaven and your hell are, and will be, as "real" as you consider your imaginary world to be real for you right now.
Everything that exists in your world is there based on the values formed by the database of your brain... All, that makes you happy or gives you sorrow, are due to these values in your personal database.
Now, it's the time for renewal!

It is time to discover the existence of our quantum potential; our cosmic electromagnetic awakening; and the multi-dimensional holographic existence created by our wave converter, commonly referred to as the brain!
So let us put an end to all the nonsense about quantum cafes, quantum healing, quantum cakes, and wake up to reality!
But first, let us become cognizant of this:
It is the time to completely reconstruct the teachings that have been imparted to us by Mohammad (SAW), the Quran and all the saints and enlightened ones, who communicated their message through signs, allegories, and metaphors. It is time to view these teachings in the light of all the scientific facts and resources available to us today.
The most magnificent brain to have ever manifested on earth was the brain of Mohammad (SAW). He disclosed to humanity the absolute reality. Those, who can comprehend this truth, who have acquired the ability to "READ", will know that the Quran is the voice of the Absolute.
Hadhrat Ali, the enlightened ones of late and all mystics have attained awareness of "the reality" by "READING" the system and have explained the same universal truths, but through various symbols and examples that were available to them in their time.
Given the fact that the universal truths have been delivered to us, time and time again, through the use of symbols and metaphors, we too can analyze the topic further by way of an analogy:
Let's assume that a present day modern man, a man that spends his day browsing the internet, communicating globally using internet telephony, aware of all that transpires across the globe in minutes through real-time news flow, was beamed back, 1,000 years in time, to a civilization that does not even have the use or knowledge of electricity. How would such a man explain the tools of our everyday life to those around him? How close to the truth would their perception be? How could they even begin to understand the actual reality of what is being described to them?
As such, many enlightened individuals, in the past, have tried to communicate the universal truths to us through the use of symbols, metaphors and examples of their time, to awaken us to the realities that, even now, we haven't completely deciphered today!
Some are able to interpret and grasp the true meaning and essence of these messages, and some, devoid of the capacity to comprehend such knowledge, take these examples literally and fail to understand them.
In that case, the first thing, that we must do, is to abandon the nonsense that religion and science are two separate things and reestablish the religious truths, using the language of science!
The "system", that science attempts to decipher today, is none other than the system "READ" by religious individuals in the past, and relayed through various metaphors and analogies. The reality, as described by Muhammad (SAW), the Quran and all enlightened souls, is actually the very field of knowledge that science is trying to attain today. Precisely for this reason, in fact, religious metaphor should serve as a catalyst in scientific exploration, rather than bringing mythological stories to mind!
If, on the other hand, we devaluate the absolute and universal truth, offered through religion by the postulations of apparent scientific developments void of the essence of religious teachings, we will forever suffer the consequences.
So long as we fail to transform our understanding of religion, based on a God "up in heaven somewhere", into the infinite, universal and absolute truth of Allah, we will inevitably live the tragic disappointment of realizing the illusory nature of our assumed reality, as it crumbles away before us!
The only path, to the absolute truth, is to comprehend the reality of "Allah" as described by Muhammad (SAW), for he neither spoke of a God "up there" nor did he suggest we look for Him anywhere outside of ourselvesMuhammad (SAW) is not the courier or the messenger of a God "out there"!These are outdated and primitive notions! He is Rasulullah; the locus of Allah's knowledge!
If you want to explore the teachings of RELIGION, you must do so by looking within the depths of your "self", your brain, the essence of your existence, and not by gazing up into space or observing the sky.
TheQuantum Potential... Known in Sufism as "The Dimension of Names", is the infinite potential from which infinite manifestations are birthed. Far from the"conceptual" world, it is the state in which all concepts, such as time, place, form, and any kind of restriction or limit, are rendered completely obsolete!
The innumerous features and qualities, within this infinite potential, are the designations of the various Names of Allah. There are no localized manifestations of Names here, only their potential! This is the state referred in Sufism as the "Observer who observes His knowledge with His knowledge in His knowledge" for Allah is "All-Knowing" (Aliym) and this is the dimension of His Infinite Knowledge! One meaning of the verse verse "Praise be to the Sustainer of the worlds, who is Rahman and Rahim" in the opening chapter of the Quran 'al-Fatiha' is this reality. What the Sufis call the "Unity of Witnessing" (Wahdat al-Shuhud) is also in reference to this dimension.
One cannot speak of the expression, manifestation, or the materialization of this dimension!
The dimension of Cosmic Electromagnetic expression has been created within, and by, the knowledge of the quantum potential... It is the second imaginary world, and the derivation of all the other dimensions. Its essence is made of the light of illusion. It is an ocean of wave. All that can be, or cannot be, perceived are present as wavelengths in this dimension. The different brain types of different species are the compositional converters of this vast field of waves. The verse, "Maliki yawmiddiyn" (Sovereign of the Day of Recompense) in the opening chapter (al-Fatiha) of the Quran, is in reference to this truth. The"Unity of Existence" (Wahdat al-Wujud) of Sufism, pertains to this level of reality.
The brains... The wave-converters of existence! Every individual creates his own holographic world via this converter, and every individual resides within his own holographic world, all the while thinking he is living in an exterior physical dimension. It is this formation that is expounded as of the verse"İyyaka na'budu ve iyyaka nastaiyn" (You alone we worship, and from You alone we seek help)from the chapter al-Fatiha.
The Spirit... the totality and the point of all "meaning". It is the core, the essence, and the "spirit" of each existence. It also refers to "life", as each monad of existence is alive, where its life is its knowledge. Indeed, life and knowledge are inseparable attributes! The degree, to which knowledge manifests, is a reflection of the level of consciousness. The "meaning" and value, of any animate being, is reflected through its spirit. Based on this understanding, we may refer to it as the expression of the cosmic electromagnetic dimension, known in Sufism as "The Great Spirit""The First Intellect" and "The Reality of Muhammad". Let's keep in mind that these terms do not refer to an object or a person, but to a particular archetypal reality.
Allah... The quantum potential is like a "point" in respect to the One denoted by the name of Allah. One point amongst an infinite amount of others! One point of reflection from within His Absolute Knowledge... The disposition of one world, of one Name, from amidst boundless "worlds of Names".
The One who knows His Names with, and through, His Absolute Essence, and "observes" His Power on His Names! The One who self-discloses and observes His reality, by manifesting His unique attributes through His creation.
The One who created the "I" and who claims "I am" through every manifested "I", yet who at the same time is far beyond any perceiver or perceived!
The One who cannot be contained within any form or perception. With regard to this reality, we can only say: "Allahu Akbar"[1] (Allah is Great).
In the light of all this, let's now continue the topic on "our universe" and the brain...
It is crucial for us to comprehend that our brain "creates" the multi-dimensional holographic world in which we live. But how can we think we exist in an exterior world if, in fact, we're living in the cocoon of our imagination?
In the first place, what is this "dream, within a dream, within a 'dream-like' holographic world" and how is it built and structured?
And how does this interior world interact, if at all, with the exterior world?
Each of us plays the role of the "king" or the "queen" in our own universe; everyone else is either a figurant or an actor in our play! The roles, we assign to the people in our lives, depend on our "perception" of who they are, based on our pre-existing database of values. And so we laugh and we cry, we grieve and we rejoice with these imagined figures that we admit into our imagined world!
As we stated above, the brain is a wave converter... It receives the the infinite waves of spirit (meaning) via the five senses and other channels, evaluates and interprets it according to its database, then makes a judgment about it and projects his judgment to his imagination! Just like how a TV converts the waves it receives into the images we see on its screen. Hence, from a very young age, we continually construct and reconstruct the multi-dimensional universe in our brain, thinking all the while that we live in an outside world.
It is scientifically evident that what we think we see, hear, smell, taste, and feel, are actually various frequencies of waves that reach our brain and get converted into the specific wavelengths that we define as "sight" or "smell" etc, hence forming the multi-dimensional holographic dimension in which the consciousness resides!
In short, each of us live in our own uniquely imagined world and will continue to do so indefinitely!
What we perceive and output as "sight", based on the data we receive from people or objects around us, are no more than an "instance" of their existence. Similar to frames of images in a film, our assumed sight is actually based on the data we receive and convert according to our database, of one still frame!
Arranging these still images of various instances side by side, we compile albums and albums of photographs and spend our lives flipping through these images!
Upon death, the brain will no longer receive incoming data, as it will be "plugged out" and disconnected from this dimension of waves. As we move on to our next plane of existence of Afterlife, these albums we've compiled during our earthly lifetime will be the only provision we can take with us on our journey. Eventually, we will commence a new life on a new dimension, and repeat the same process of data conversion using the signals received from the life forms of this dimension as input and our existing albums as database!
The brain renders the most powerful instances as primary data and creates a kind of "cache" memory for quick future access. This is similar to how our computers recall a previously visited page from its cache memory. As such, every time we encounter a previously "interpreted" thing, whether it be a person, an object or a situation, our brains automatically bring up the most prevalent "memory" of that thing. Immediately, we begin interpreting and "judging" and even experiencing certain emotions, all based on some information we stored in the past! This form of preconditioned evaluation is the biggest form of obstruction in one's development.
Muhammad (SAW) has cautioned us in this regard with his words: "If you haven't seen someone for a year, know that the person you see today is not the person you saw a year ago!"
It is for this reason that we must continuously clear our predetermined conditionings - delete our "cache memory"- so that we can re-evaluate every situation, according to the current input of data.
The brain, although appearing to be a big chunk of flesh with its neuron-based infrastructure, is actually a mass of frequency that our current level of scientific knowledge cannot yet completely comprehend or decipher. In this respect, we refer to this intricate network of wave as "THE SPIRIT" and its essence as "Light" (Nur). Light is knowledge, it is "data". It is like an endless packet of "meaning" and it is immortal. This is why it is said that "we shall taste death", and not "cease to exist"!
Let's remember that the person, across from us, is also living in his/her own cocoon world, or in other words, their individual multi-dimensional holographic universe. When our brain converts the data waves of instances relating to his physical existence, he takes his place in our holographic world and we think such and such person "exists"! But the fact is, we "define" his existence, his character, his role and even his effect in our lives!
This is why the great Sufi masters referred to this life as a "dream", and in reference to it said, "We come alone, we live alone and we die alone".
Some of us are confined in a cocoon (multidimensional holographic world) resembling a castle, while some of us live in slums; some of us decorate our homes (brains) with precious collections, while others fill it with garbage. Some of us don't even have a home and are referred to as "homeless" (or "brainless" in slang.)
Our holographic universe is the world that we are going to live in for eternity. How we interpret the instances of data waves we receive, who and what we admit into our world and where we place them is either going to create our heaven, or our hell.
The instances of data waves, that reach our minds, will be evaluated and based either on the "garbage" that we have already brought into our homes, or based on the new homes we construct with the guidance of the universal system "Sunnatullah[2]". The world, the intermediate realm, resurrection, heaven and hell, are all experienced within, and are allshaped by our personal interpretations and evaluations.
Upon death, after the brain "shuts down" and ceases to function in its "flesh" form, a "system reboot" will occur and our life will continue to run with the back-up of our astral (wave) brain. Thus, we see the importance of backing it up with solid and functional knowledge!
Everything, described in the Quran and by Muhammad (SAW), is reality and will be lived! The important thing is to decipher the meaning of these verses correctly, without misconstruing them or taking them literally. For instance, Muhammad (SAW) says that man will be resurrected (recreated) from his coccyx (tailbone) in the afterlife. To construe this as a physical resurrection of the body made of flesh and bone is nothing but ignorance. Clearly, this is a metaphor to suggest that a "form of life" will continue after death. Or for example, he says "the sun will come within a mile of the earth". This corresponds with today's scientific understanding that eventually the sun will engulf the earth, andthe earth will be vaporized.
Muslims have even misunderstood the verse regarding the "spirit". When Jewish scholars enquired about the "spirit" to Muhammad (SAW), a verse was revealed in answer to their query, telling them "Little has been disclosed to you about the spirit". This verse is addressing the Jewish scholars, telling them that "little or no knowledge", regarding the spirit, was given to the Jews. Indeed, there is a significant amount of information regarding the spirit in Islam, whereby Ghazali states,
"One, devoid of the knowledge of the spirit, cannot reach enlightenment."
Our spirit is our very existence! It is our world. Muhammad (SAW) says:
"Your spirit is your body and your body is your spirit."
We are what we perceive!
However...
We also contain within us the potential of "vicegerency" (caliphate), to which we have become ignorant! We have become unaware of this gateway that opens to the dimension of our cosmic electromagnetic expansion!
If we shape and fill our world with the wealth that awaits us behind the gate of vicegerency (the properties of the dimension of Names!), then our worlds will transform into paradise and eventually we will unite with Allah. The following verse refers to the purification of one's world, i.e. one's perception!
"The purified and the refined will be emancipated"...
We weave our cocoon world, not only with the genetic information we inherit but also with all the conditionings that we receive throughout our life. Our database is "based" completely on these preconditioned values, channeling and shaping our lives, for better or for worse!
In short, our lives are based solely on externality. We are never truly aware that our lives are spent within a cocoon that we weave ourselves, and not in an outside world!
Although we experience a sample of our cocoon-like existence each night when we go to sleep, we don't recognize or conceive it! In the state of sleeping, we are all alone, neither our partner, who may be lying right next to us, nor our children, in the next room, nor anyone else are with us!
When we experience death and move on to a non-material state of existence, all instantaneous impressions are left behind, including people and objects.We travel on alone in our journey, taking only our conditionings and perceptions with us.
In the past, prophets, saints and enlightened people have used symbolic and metaphoric language -due to the lack of scientific knowledge- to share the universal truths with people and to wake them up to the reality of their cocoon-like world.
The goal is to cleanse our minds from predetermined judgments, based on data waves of instances, and to renovate our holographic worlds with substantial material, in such a way that it becomes transformed from a slum house, or a hoard house, to a palace befitting a sultan.
A sultan is one who lives in correspondence with the Names of Allah, a vicegerent!
One, who can break out of his cocoon, will be emancipated and promoted to the dimension of cosmic electromagnetic expansion as a friend of Allah (wali), where his world will be "paradise-like".
Muhammad (SAW) says: "In paradise, each person will possess a whole world of their own, the smallest of these will be 10 times bigger than earth, and they will be told: 'Wish what you may, for all your wishes will be granted!'" In other words, each person will be the sultan of his or her own world.
As for those who have chosen to live in slums, i.e. those who did not develop their brains but chose to fill it with garbage instead will forever suffer its consequence!
Either use your brain and research and evaluate the truth scientifically or surrender to the path drawn out for you by Muhammad (SAW) - for there is no other salvation.